تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
Printable View
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر جام و در یا اخی
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی
جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی
نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی
زرد پتوں کے بکھرے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی
حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا مری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دلِ ناداں نے دکھا رکھی ہے ہشیاری کیا
قید خانے سے نکل آئے تو صحرا کا حصار
ہم سے ٹوٹے گی یہ زنجیر گرفتاری کیا
وہ بھی طرفہ سخن آراء ہیں چلو یوں ہی سہی
اتنی سی بات پہ یاروں کی دل آزاری کیا
چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن
اجنبی دھوپ میں جلتے ہوئے رشتوں کے شجر
گھر کے آنگن میں مناجات کا پودا روشن
کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن
سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن
کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی
ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن
آنکھیں ایسی ہوں کہ جل جائیں سیاہی کے ورق
انگلیاں ایسی کہ تحریر کا سینہ روشن
ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنج زر نکالتے ہیں
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئنے اجالتے ہیں
سجا کے آئنۂ حرف پیشِ آئنہ
ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں
عذابِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرعِ تر
سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں
اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
اب ڈھونڈ اور قدر شناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہر حال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
اس شہر میں گارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو
وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ