معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
Printable View
معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِ زباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بپھری رُتوں کے رنگ سبھی دِل میں سینت لیں
تقریب اِس طرح کی بھی کوئی منائیں ہم
کیونکر پئے حُصولِ ثمر مثلِ کودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
بفیضِ قرب پھریں مستیِ نظر کی رُتیں
کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کھِلیں
یہی حجاب تو ہیں وجہِ خامشی، ورنہ
سُنیں تمہاری بھی، کچھ اپنے دل کی بات کہیں
یہ حرفِ گرم، تہِ حلق رُک گیا کیسا
سُلگ اُٹھی ہیں یہ کیونکر لب و زباں کی تہیں
کسی اُفق کو تو ہم تُم بھی دیں جنم آخر
یہ آسمان و زمیں بھی کسی جگہ تو ملیں
کبھی تو دیجئے آ کر اِنہیں بھی اِذنِ کشود
پڑی ہیں خوں میں جو گرہیں کسی طرح تو کھُلیں
یہ شُعلہ ہائے بدن اپنے سامنے پا کر
چراغ کیوں نہ لہو کے بچشمِ شوق جلیں
بات سمجھو نہ اور ترساؤ
پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ
چاند سے اِس رُخِ منّور کو
حرفِ انکار سے نہ گہناؤ
ہم سمجھتے ہیں چشم و دل کی زباں
اتنا ناداں ہمیں نہ ٹھہراؤ
مثلِ خوشبُو در آؤ ہر در سے
مثلِ گُل اِس نظر میں لہراؤ
مسکنِ درد ہے یہ تن اِس کو
لمس و لطفِ نظر سے سہلاؤ
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
ہو مزّین تمہی سے اپنا بدن
اِس کے صفحوں پہ یُوں اُتر آؤ
بچھڑ چلے ہو تو کیا پھر کبھی نہ آؤ گے
رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے
بھٹکنے دو گے نہ کب تک اِسے قریب اپنے
مرے خیال کے پر کب تلک جلاؤ گے
فلک پہ قوسِ قزح جس طرح پسِ باراں
افق پہ کیا مرے، تم یوں نہ جھلملاؤ گے
نہ رہ سکیں گے چھپے یہ خطوط لُطف، جنہیں
بہ احتیاط تہ پیرہن چھپاؤ گے
وُہ جس سے جسم میں چنچل رُتوں کے در وا ہوں
وُہ اِذنِ خاص زباں پر کبھی تو لاؤ گے
پسِ خیال لئے شوخیِ گریز اپنی
ہوئی ہے شام تو اب رات بھر ستاؤ گے
گمان و وہم کی دلدل سے جانے کب ماجدؔ
ہماری جانِ گرفتہ کو تم چھڑاؤ گے
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گر ہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر در پئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعِ انوار ہُوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
تن میں ترے مشعلیں جلاؤں
یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں
چاہت کا وہ سِحر تُجھ پہ پھونکوں
رگ رگ میں قیامتیں مچاؤں
تکمیل کروں کبھی تو اپنی
تجھ کو سرِ جسم و جاں سجاؤں
مخفی پسِ لب کلی کلی کے
جو راز ہے، وُہ تجھے بتاؤں
مَیں خود ہی جواب جن کا ٹھہروں
ایسے بھی سوال کُچھ اُٹھاؤں
غنچوں کی چٹک ہو جس پہ شیدا
وُہ زمزمہ اَب کے گنگناؤں
ہر لُطف ہے اِس میں ہر مزہ ہے
ماجدؔ کی غزل ہے کیوں نہ گاؤں
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں