کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
Printable View
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیم
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
چاند جب بھی دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دئیے کچھ اپنے کنارے ہم نے
اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
اتنے شّفاف کہ تھے روح و بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظارے ہم نے
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
لوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لوٹیں تو دکھیں
وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے