ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
Printable View
ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ہوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں
میں کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں
جواب تک نہیں لکھ پایا میں ، آن خوابوں کے گم میں ہوں
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے