پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
Printable View
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ نیند روح میں تھی اور جاگتا تھا میں
دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے
مجھ پہ طاری ہے رہ ِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے
یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب
ہر سلسلہ تھا اُس کا خُدا سے ملا ہوا
چُپ ہو کہ لب کُشا ہوا بلا کا خطیب تھا
طعنۂ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں
اُترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے