بچھڑ کے پھر سے ملیں گے یقین کتنا تھا
تھا ایک خواب ہی لیکن حسین کتنا تھا
مرے سوال سے پہلے وہ مجھ کو چھوڑ گیا
حسیں تو تھا ہی وہ لیکن ذہین کتنا تھا
Printable View
بچھڑ کے پھر سے ملیں گے یقین کتنا تھا
تھا ایک خواب ہی لیکن حسین کتنا تھا
مرے سوال سے پہلے وہ مجھ کو چھوڑ گیا
حسیں تو تھا ہی وہ لیکن ذہین کتنا تھا
میں تو ساحل تھا چلتا بھی تو کیسے چلتا
وہ بھی موجوں کی طرح آیاتوپل بھرٹھہرا
چاند پگلا ہے چلا آیا جو میری جانب
میں توبادل تھاہمیشہ ہی سےبےگھرٹھہرا
جب سچا سُچا خونِ جگر آنکھوں کی طرف بڑھ آتا ہے
یہ لوگ سیانے کہتے ہیں تب اِک آنسو بن پاتا ہے
یہ آنکھ میں بس اِک قطرہ نہیں یہ صدف میں گویا گوہر ہے
کتنا ناداں انساں ہے رضا بے وجہ موتی لُٹا تا ہے
گیلے کاغذ کی طرح زندگی ٹھہری اپنی
کوئی لکھتا بھی نہیں ، کوئی جلاتا بھی نہیں
تھک جاتی ہے یہ زندگی ، یونہی کبھی کبھی
آتی ہے یاد جب بھی تیری ، یونہی کبھی کبھی
ملتے ہیں جو دو دل کہیں تو سوچتا ہوں میں
تھی تم سے اپنی دوستی ، یونہی کبھی کبھی
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیرے میں لوٹ آوں گی
وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناوں گ
دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو
موت کیا زندگی نہیں ہوتی
دل تبسم کسی کو دو پہلے
مفت میں شاعری نہیں ہوتی
تم بھی بدل ہی جاؤ زمانے کے ساتھ ساتھ
میرا نہ ساتھ دو کہ بُرا مانتے ہیں لوگ
میں جانتی ہوں میری خوداریاں تجھے کھو دیں گی
مگر میں کیا کروں مجھے مانگنے سے نفرت ہے
انا پرست ہے اتنا کے بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند میری ہر کتاب کر دے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا