دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے
Printable View
دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے
کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
اک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے
کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے
پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے
اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے
کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے
ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے
سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے