لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندو ہ سماعت ہے اثر ہو نے تک
Printable View
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندو ہ سماعت ہے اثر ہو نے تک
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میر ے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہو نے تک
اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے
میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے
وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے
ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے
خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے
در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے
تجھ کو بھی کوچۂ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے