یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
Printable View
یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
بدن کے نقرئی ٹکڑے، لہو کی اشرفیاں
ادھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون
یہ کس کے نام پہ تیغِ جفا نکلتی ہوئی
یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون
ابھرتے ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں
کلامِ حق سرِ نیزہ سنانے والا کون
ملی ہے جان تو اس پر نثار کیوں نہ کروں
توٗ اے بدن، مرے رستے میں آنے والا کون
سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا
ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا
چراغِ دشت بجھا اور ملا اشارۂ غیب
کہ آسمان پہ ظاہر کوئی ستارہ ہوا
کبھی مرا چمنِ درد سوکھتا ہی نہیں
رِدا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا
سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں
اب تک خیام دشت میں برپا ہمارے ہیں
وابستگانِ لشکرِ صبر و رجا ہیں ہم
جنگل میں یہ نشان و مصلّیٰ ہمارے ہیں
نوکِ سناں پہ مصحفِ ناطق ہے سر بلند
اونچے عَلَم تو سب سے زیادہ ہمارے ہیں
یہ تجھ کو جن زمین کے ٹکڑوں پہ ہے غرور
پھینکے ہوئے یہ اے سگِ دنیا! ہمارے ہیں
سر کر چکے ہیں معرکۂ جوئے خوں سو آج
روئے زمیں پہ جتنے ہیں دریا، ہمارے ہیں*
تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میںہیں
لامسہ، شامہ و ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مرے راز دانوں میںہیں
اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں، سب خدا کے خزانوں میںہیں
ناقۂ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمۂ ناز میں بازیابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشورِ دلبری پاس داروں میںہیں، ساربانوں میںہیں
میرے اندر بھی ہے ایک شہرِ دگر، میرے مہتاب، ایک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میںہیں، کیسے کیسے قمران مکانوں میںہیں
اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا
ان دنوں پاؤں میرے زمین پر نہیں، اب مری منزلیں آسمانوں میںہیں
شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے
میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
تجھی پہ ختم ہے جاناں، مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں
بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں
جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
ہم نے مدت سے اُلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ زر دار ترے درہم و دینار پہ خاک
پتلیاں گرمی نظارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک
جو کسی اور نے لکھا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرہ اخبار پہ خاک
پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک
آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک
یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک
یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک
چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا
آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا
یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا
اک اسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دھوپ عذابوں کا
ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی