قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوں ہی میں پرواز
Printable View
قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوں ہی میں پرواز
تم ہی کہو کہ ہو سکے گا مرا علاج
اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا
ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر مین رہے اور ہر سفر سے گئے
ترک تعلق ایک قیامت پرسش ِ یاراں اور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے
مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے
کھنچی تھی جس سے حرف میں اک صورت ِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
ہم سے سادہ لوگ اکثر آ گئے دھوکے میں
کتنا دل نشیں لہجہ ہے ترے تکلم کا
میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار
اُس لمحے تو گردش ِ خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں