تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
Printable View
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
دکھا رہا ہے کسے وقت ان اگنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو پھر یہ سب کیا ہے
میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دستورِ گفتگو عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیر لب کیا ہے
اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبجی خواب کی تعبیر میں آ
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ
وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہہ کا آئینہ دکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دکھائے دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کم بخت
اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں
خیر، دلّی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤن کے سوا
اپنی دہلیز پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اس غزل آرا کو سنا کر دیکھیں
رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آب ہے پہرا لگا ہوا کیسا
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار
افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذان ہے کہ عَلم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشتٕ جفا میں کسے پکارتے ہیں
یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہوگا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں کو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئینہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لئے
اجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج ابھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا
تجھے بھی یاد ہے اے آسمان کہ پچھلے برس
مری زمین پہ گزرا ہے حادثہ کیسا
خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا
کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا درِ شبّیر پپسر پانی کا
تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون
بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون
سوادِ شام یہ شہزادگانِ صبح کہاں
ویاہ شب میں یہ سورج اگانے والا کون
یہ ریگزار میں کس حرفِ لا زوال کی چھاؤں
شجر یہ دشتِ زیاں میں لگانے والا کون
یہ کون راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا ابھی
اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے والا کون