صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچائی
میں پہلے تحریر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
Printable View
صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچائی
میں پہلے تحریر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
کھنچتی تھی جس سے حرف میں اک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لیے
زلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ
زندگی ہو جہاں قرار کرو
اک متاع ِ دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
اور یہ عشق و ہوس کی دنیا
تشنگی کے سوا کیا پائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی