چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک
خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
Printable View
چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک
خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں
چلیں گو کہ سینکڑوں آندھیاں ، جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک
بھڑک اٹھے آتشِ طور پھر، کوئی اس طرح کی دوا نہیں
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں
رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ
شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست
کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،
مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے
بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست
آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں
تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست
طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا
پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے
حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی
چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا
کبھی تو ہو گا ہمارے بھی یار پہلو میں
کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا
بس اپنی مستی کو گردش ہے چشم ساقی کی
ہمارا پیٹ نہیںہے شراب کا مٹکا
عجب نہیں ہے جو سودا ہو شعر گوئی سے
خراب کرتا ہے آتش زبان کا چٹکا
نہ پھول، بیٹھ کے بالائے سرو، اے قمری
چڑھے جو بانس کے اوپر یہ کام ہے نٹ کا
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کھُل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارماں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا
کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل
بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا