کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
Printable View
کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے
بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی
اُن کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں*سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں*کچھ نہیں*کہتا
کارواں کی تلاش کیا اے دل
آ کے منزل پہ سب ملیں گے آپ
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں* یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
مل کے غیروں سے بزم میں یہ کہا
مجھ کو آ کر سبھی سے ملنا تھا
چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
الٰہی کیوں نہیں* اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں* وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں
پاؤں* پر اُنکے گِرا میں* تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک
ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا
گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوم لیا کلی کلی کا
جس سے کیا ہے آپ نے اقرار جی گیا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگیا
آئے بھی وہ چلےبھی گئے مری راہ سے
میں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا
ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ
روزن دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا
ملتا نہیں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
اپنی آنکھوں میں کوندگئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر
واں سے تب سرکا ادہار دکھنے لگا
نہیں ہے کچھ قتل انکا آساں یہ سخت جاں ہیں بری بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا
افشائےرازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسےجتا تو دیا، جان تو گیا
وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ دیں گے
غیر کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہیں
رونق جو آ گئی پسینے سے موت کے
پانی ترے مریض پر اک آن پھر گیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا
قصور تیری نگہ کا ہے کیا خطا اس کی
لگاوٹوں نے بڑھا یا ہے حوصلہ دل کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا
کسی نے ملنے کا کیا وعدہ ۔ کہ داغ
آج ہو تم اور ہی سامان میں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، ’’ہم نہیں سنتے تیری’’
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا
لے چلو مجھکو رہروان عدم
یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
تاریکیِ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے
آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیے
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کوئی آسان ہے تیرا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں