کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے
Printable View
کتنے حسین لوگ تھے جو مل کے ایک بار
آنکھوں میں جذب ہو گئے دل میں سما گئے
شمع پہ ایک رات بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
چل دیئے تم بھی مجھے چھوڑ کے تنہا آخر
ساتھ چلتے تو نئی رسم کے بانی ھوتے
اپنی زند گی کی کتا ب سے لفظِ حسرت ہم نے مٹا د یا
جِسے چا ہا اُسے پا لیا جسے پا نہ سکے اُسے بھلا دیا
کچھ طبعت ہی ملی تھی ایسی
چین سے جینے کی صورت نہ ہویی
جیسے چاہا اسے اپنا نہ سے
جو ملا اس سے محبت نہ ہویی
کھرچ ڈالا میں نے اپنے ہاتھون کی لکیروں کو
کسی عامل نے کہا تھا تو پرایا ہو گا
گنگناتے ہوئے آنچل کو ہوا دے مجھ کو
انگلیاں پھیر کے بالوں میں سُلا دے مجھ کو
جس طرح فا لتو گلدان پڑے رہتے ہیں
اپنے گھر کے کسی کونے میں لگا دے مجھ کو
Very Nice
Keep it up
مشکل کہاں تھے ترک تعلق کے مرحلے
اے دل مگر سوال تیری زندگی کا تھا
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے