دل میں ھوتا تو عین ممکن تھا نکل بھی جاتا
اب تو وہ شخص بہت دور تلک ھے مجھ میں
Printable View
دل میں ھوتا تو عین ممکن تھا نکل بھی جاتا
اب تو وہ شخص بہت دور تلک ھے مجھ میں
انگلیاں آج بھی اسی سوچ میں*گم ھیں فراز
اس نے کیسے نئے ھاتھ کو تھاما ھو گا۔۔۔
خزا*ں کی رت سے شکوہ فضول ھے محسن
میں پھول تھا یوں بھی مجھے بکھرنا تھا
تم کو احساس ندامت ہو تو اتنا کرنا
پھر کسی دوست کو اس طرح نہ رسوا کرنا
سایہ گل میں بیٹھ کے ناصر
بہت روے جب وہ یاد آیا
بات کرتا تھا قوسِ قزح کے رنگوں میں
وہ ایک خیال تھا اور شاعری میں رہتا تھا
کوئی بھی کام ہو انجام تک نہیں جاتا
کسی کے دھیان میں پل پل یہ دھیان ٹوٹتا ہے
ہنر
تم پتھر ہو
اسی لئے تو
شیشے جیسے لوگوں کو
بس پتھر کہنا جانتے ہو
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
قتل بھی کرتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھئ نہیں
ہر کوئی ہے دل کی ہتھیلی پہ سہرا رکھے
کسےوہ سیراب کرے کس کو پیاسا رکھے
مجھ کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر تجھ سا نام بھی رکھے