آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
Printable View
آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
دلوں پہ جبر کی تمام حکمتیں الٹ گئیں
جدائیوں میں اور بھی رفاقتیں سمٹ گئیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
تیرے دیار یاد سے گزر رہا تھا قافلہ
کہیں تو دن پلٹ گئے کہیں شبیں پلٹ گئیں
میں جس کسی محاذ پہ صفیں بدل بدل گیا
میرے مقابلے میں تیری آرزوئیں ڈٹ گئیں
جدائیوں سے دامن خیال تو چھڑا لیا
مگر کئی اداسیاں نصیب سے چمٹ گئیں
عجیب واقع ہے ایک دن سکوت شہر سے
قلم بچا رہے تھے ہم کہ انگلیاں بھی کٹ گئیں
ِ
ان گنت بے حساب آن بسے
آنکھ اجڑی تو خواب آن بسے
دل پیالہ نہیں ___ گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
ہماری آنکھ میں بھی اشک گرم ایسے ہیںکہ جن کے آگے بھرے پانی آبلہ دل کا