آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک
اس مسافت میں کیں خطۂ باراں بھی تو ہے
Printable View
آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک
اس مسافت میں کیں خطۂ باراں بھی تو ہے
راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں
خیر۔۔ اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے
کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو
ہر طرف گردِ رہِ شاہ سواراں بھی تو ہے
حاکمِ وقت کو یوں بھی نہیں گوشِ فریاد
اور پھر تہنیتِ نذر گزاراں بھی تو ہے
ایسے آشوب میں کس طرح سے چُپ بیٹھا جائے
خون میں تاب و تبِ حوصلہ داراں بھی تو ہے
نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر
چراغ ہم کسی شامِ زوال ہی کے تو ہیں
جسارتِ سخنِ شاعراں سے ڈرنا کیا
غریب مشغلۂ قیل و قال ہی کے تو ہیں
نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
کہا تھا تم نے کہ دیتا ہے کون عشق میں جان
سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں
شہا! ملال نہ رکھ خاک اڑانے والوں سے
کہ یہ گواہ تیرے ملک و مال ہی کے تو ہیں
بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
اے زمیں تو اس اندھیرے کا ستارہ ہے کہ ہم
اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
کیا خبر کون زوالِ شبِ ہجراں دیکھے
یاں چراغِ شبِ ہجراں کا اشارہ ہے کہ ہم
تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی
دیکھ اے موجِ بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم
آج تک معرکۂ صبر و ستم جاری ہے
کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم
زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
ہوائے خوش بدنی میرے جی میں پھول کھلا
یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا
بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
نسیم حجرہ نشیں لوگ انتظار میں ہیں
دریچے کھول، ہماری گلی میں پھول کھلا
سمجھ لرزتی لوؤں کو دعائے موسمِ وصل
چراغ موج پہ رکھ دے، ندی میں پھول کھلا
ہم ہر اک شخص کی دعوت پہ کہاں جاتے ہیں
پھیر دی ہے مہ و انجم کی سواری ہم نے
موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک
لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے
جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
خاک پر آگے نظر اپنی اتاری ہم نے
عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے
اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے
بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے
حریف تو سپر انداز ہو چکا کب کا
درونِ ذات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے
کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا، نہ میرا ہاتھ
جو سوچئےتو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی، آسمان ہی ہوگا
محبتوں میں بہر ھال تنگ سا کچھ ہے
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہر حال بہا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
اس شہر میں گارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو