سلسلے اس سے جو مل جائیں تو ٹھیک
ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب
Printable View
سلسلے اس سے جو مل جائیں تو ٹھیک
ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب
لوگ موجود ہیں اب بھی جن کے
منہ سے جو بات نکل جائے ادب
سایۂ زلف میں مر جاؤں علیم
کھینچ لے گر نہ مجھے سایۂ رب
دُکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دُکھاؤ نہیں
جو ہو گئے ہو فسانہ تو یاد آؤ نہیں
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ نہیں
زمیں کے لوگ تو کیا، دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ نہیں
تمہارا سَر نہیں طِفلانِ رہ گزر کے لئیے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ نہیں
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ نہیں
ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری
فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ نہیں
وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے
سخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ نہیں