تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
Printable View
تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد
میں نے اس کا سوگ منایا کچھ ایسے
خالی رکھا پیمانوں کو شام کے بعد
یاد کرے جب مجھ کو تیری تنہائی
دیکھا کرنا گلدانوں کو شام کے بعد
فرحت چاند کے خوف سے کر لیتا ہوں بند
کمرے کے روشن دانوں کو شام کے بعد