لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
Printable View
لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبر جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے
اک ذرا بیتا تو سب دنیا خیالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لا ابالی کر گیا
ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو
فصل لا وارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
پربت پربت اڑے پھرے ہے من پنچھی بے چین
جانے کہاں کہاں لے جائیں سانوریا کے نین
آؤں کہیں چھپ کے روتے ہیں ورنہ نگری میں
کوئی سنے نا ہوک دلوں کی کوئی سنے نا بین