مجھ سے بچھڑ کے وہ رویا تو ہوگا
مجھے کھو کے خود کو کھویا تو ہوگا
گزرے لمحے اُسے تڑپاتے تو ہونگے
منہ تکیہ میں چھپا کے وہ روتا تو ہوگا
Printable View
مجھ سے بچھڑ کے وہ رویا تو ہوگا
مجھے کھو کے خود کو کھویا تو ہوگا
گزرے لمحے اُسے تڑپاتے تو ہونگے
منہ تکیہ میں چھپا کے وہ روتا تو ہوگا
ٹوٹتا جب بھی فلک پر کوئی ستارا دیکھا
ہم نے جانا کہ کوئی اپنے ہی جیسا دیکھا
کوئی دوست نہیں بے سروسامانی میں
دشت میں صرف سرابوں کا سہارا دیکھا
بکھر گئے میری زندگی کے تمام ورک
ناجانے کب کوئی آندھی اڑا کے لے جائے
میں کب تک دوسروں کے دکھ سنبھل کے رکھوں
جس جس کے ھیں نشانی بتا کے لے جائے
ہم سوچتے رہتے ہیں عطا اورطرح کی
دیتا ہے تیرا دست کرم اور طرح سے
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب چھپا ہے محسن
میں جس شخص کو چھو لوں وہ میرا نہیں رہتا
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
-میں وہ سائل ہوں جِسے کوئی صدا یاد نہیں
رہتا ہوں اگر میخانے میں تو مجھے شرابی نہ سمجھ اے ساقی
ہر وہ شخص جو مسجد سے نکلے نمازی نہیں ہوتا
کبھی کبھی اپنوں میں بھی دشمن نکل اتے ہیں
وفا کے باغ میں بے وفائی کے پھول نکل اتے ہیں
جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ
وقت اور حالات کے ساتھ انسان بدل جاتے ہیں
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کہاں کے عشق و محبت کہاں کے ہجر و فراق
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیۓ