اہل زمیں نے کو نسا ہم پر ظلم نہیں ڈھا یا
کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی
Printable View
اہل زمیں نے کو نسا ہم پر ظلم نہیں ڈھا یا
کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی
ان دنوں روح کا عالم ہے عجب
جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن
جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب
جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے
ہے محبت ہی محبت کا سبب
جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو
بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب
پہلے اک ناز بھرا ربط و گریز
اس نے پھر بخش دیا سب کا سب
تم سا کیا ہو گا یہاں خواب کوئی
مجھ سا کیا ہو گا کوئی خواب طلب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
اس کے عشّاق جہاں بھی دیکھو
ایک ہی نشّے میں ڈوبے ہوئے سب