رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
Printable View
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے
بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن
جو بھید جسم کا تھا جاں سے کھولتا تھا میں
ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کے بہت خوب آئے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلہ اہل وفا
سوچ اسے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادر و قدیر کے ساتھ
ویسے ہی لکھو گے تو میرا نام ہی ہو گا
جو لفظ لکھے وہ میری جاگیر ہوئے سب
رکھتا نہ کیوں میں رُوح و بدن اُس کے سامنے
وہ یُوں بھی تھا طبیب وہ یُوں بھی طبیب تھا
ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں