تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے
Printable View
تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے
اتنا کڑوا عشق سبھی
لوگوں نے کب چکھا ہے
بس اِک چراغ یہ روشن دِل تباہ میں ہے
کہ اُس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
تمہارا ہجر صدی دو صدی تو پالیں گے
ابھی کچھ اِتنی سکت تو ہماری چاہ میں ہے
میں مطمئن ہوں کہ تو مطمئن نہیں دشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے
عجب غرور میرے قلبِ منکسر میں ہے
عجیب عجز میری ذاتِ کج کلاہ میں ہے
میں پُرسکوں ہوں مضافات میں بسیرے پر
کہ شہر بھر کا تماشا میری نگاہ میں ہے
وہ تم جو چھوڑ گئے تھے دُکھا ہوا میرا دل
سفر نے ڈھونڈ لیا ہے رہا سہا میرا دل
کچھ اس طرح سے تعزیت کی آس میں تھا
کسی نے ہنس کے بھی دیکھا تو رو دیا میرا دل
ہے اپنی اپنی رسائی رہ محبت میں
ہے اپنا اپنا طریقہ ترا خدا میرا دل