جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
Printable View
جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
اڑتے اڑتے آخر چاند
دل کی شاخ سے الجھا ہے
ہم تھک ہار کے سوئے ہیں
درد بھلا کب سویا ہے
سرد مزاجی کا موسم
اک مدت سے ٹھہرا ہے
رستے خالی خالی ہیں
کوئی رہ سے گزرا ہے
ایسا زور نصیب میرا
جانے کس نے لکھا ہے