مصرعوں کو ہم نے نعرہ تکبیر کر دیا
گیتوں کے پختہ کار گلوکار مر گئے
Printable View
مصرعوں کو ہم نے نعرہ تکبیر کر دیا
گیتوں کے پختہ کار گلوکار مر گئے
اسلوب تحت اتنا گرجدار ہو گیا
مہدی حسن کے حاشیہ بردار مر گئے
کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلمل مجھ کو دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد
مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد
اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا
کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا
وہ جو سہتا ریا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں
مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا
اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا
اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا
کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہو گیا
میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا
لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے