جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی
Printable View
جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی
تیرے ہاتھوں سے پی رہا ہوں شراب
مے کدہ میرے نام ہے ساقی
بس گئی ہے میرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں ، تری خوشبو آئے
میری آنکھوں میں تِرے پیار کا آنسو آئے
کوئی خوشبو میں لگاؤں ، تری خوشبو آئے
وقتِ رُخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھُول سے بازو آئے
میں نے دن رات خُدا سے یہ دُعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو در پر مرے جب تو آئے
ان دنوں آپ کا عالم بھی عجب عالم ہے
تِیر کھایا ہوا جیسے کوئی آہو آئے
اس کی باتیں کہ گل و لالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے
اُس نے چھوکر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھ میں آنسو آئے
جو دُکھ سُکھ بانٹ سکے ،ہم اس کو عورت کہتے ہیں
ورنہ ہر اچھی صورت کو پتھر کی مورت کہتے ہیں