تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
مجھ کو منا رہا ہے، کبھی خود خفا بھی ہو
Printable View
تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
مجھ کو منا رہا ہے، کبھی خود خفا بھی ہو
تو بے وفا نہیں ہے مگر بے وفائی کر
اُس کی نظر میں رہنے کا کچھ سلسلہ بھی ہو
پت جھڑ کے ٹوٹتے ہوئے پتوں کے ساتھ ساتھ
موسم کبھی تو بدلے گا ، یہ آسرا بھی ہو
چپ چاپ اس کو بیٹھ کے دیکھو ں تمام رات
جاگا ہوا بھی ہو ،کوئی سویا ہو ابھی ہو
اس کے لیے تو میں نے یہاں تک دُعائیں کیں
میری طرح سے کوئی اسے چاہتا بھی ہو
تو مجھ سے تیز چلے گا تو راستہ دوں گا
دُعا کے پھول تری راہ میں بچھا دوں گا
ابھی تو زندگی حائل ہے تجھ سے ملنے میں
میں آج رات یہ دیوار بھی گرا دُوں گا
اب ا سکے بعد کوئی بے وفا نہ پاؤ گے
میں اپنے آپ کو اتنی بڑی سزا دوں گا
بہت عجیب سی لڑکی ہے اس کی خاطر میں
پڑھے بغیر حسینوں کے خط جلا دوں گا
وحشی اُسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انسان کی لازوال محبت غزل سے ہے