یہ دیکھ ہجر ترا کتنا خوبصورت ہے
عجیب مرد ہوں سولہ سنگھار کرتا ہوں
Printable View
یہ دیکھ ہجر ترا کتنا خوبصورت ہے
عجیب مرد ہوں سولہ سنگھار کرتا ہوں
بدن سمیٹ کے لے جائے جیسے شام کی دھوپ
تمہارے شہر میں اس طرح گزرتا ہوں
تمام دن کا سفر کر کے روز شام کے بعد
پہاڑیوں سے گھری قبر میں اترتا ہوں
مجھے سکون گھنے جنگلوں میں ملتا ہے
میں راستوں سے نہیں منزلوں سے ڈرتا ہوں
میں آسماں کی شاخ پہ زندہ ہوں دوستو
چمکار کر بلاؤ، پرندہ ہوں دوستو
اب کے فساد نے مجھے یہ بھی بتا دیا
میں آدمی نہیں ہوں، درندہ ہوں دوستو
تم جن کے نیچے بیٹھ کے اوتار ہو گئے
ان برگدوں کا میں بھی پرندہ ہوں دوستو
اخبار میں خبر مر ے مرنے کی چھپ گئی
میں چیختا رہا کہ میں زندہ ہوں دوستو
سچ یہ ہے میری بابری مسجد مُجھی میں ہے
اور میں خُدا کے فضل سے زندہ ہوں دوستو
اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
ہم لوگ جب ملیں تو کوئی دوسرا بھی ہو