بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
Printable View
بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
ایسی تیز ہو ا اور ایسی رات نہیں دیکھی
لیکن ہم نے مو لا جیسی ذات نہیں دیکھی
اس کی شا ن عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خو رشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی
بستر پر مو جو د رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی بر سات نہیں دیکھی
اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی
ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جا تی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی
اک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے
یہ شان برکات کسی کے ساعت نہیں دیکھی
شا ہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن
اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی
اس کے نا م پہ ماریں کھانا اب اعز ا ز ہما را
اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی
صدیوں کی اس دھو پ چھا ؤں میں کو ئی ہمیں بتلائے
پو ری ہو تی کونسی اس کی بات نہیں دیکھی