محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
Printable View
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھُو کر نہیں دیکھا
بے لباسی جو ہر لباس کی ہے
مفلسی عہدِبدحواس کی ہے
مطمئن ہیں ذرا امیر و غریب
ہر مصیبت مڈل کلاس کی ہے
آئینہ بن گئے در و دیوار
چاندنی یہ اسی لباس کی ہے
سب کو ساقی نے یہ جواب دیا
یہ خطا آپ کے گلاس کی ہے
تیری خوشبو میں دیکھ لیتا ہوں
یہ مہک تیرے آس پاس کی ہے
غزل کو ماں کی طرح با وقار کرتا ہوں
میں مامتا کے کٹوروں میں دودھ بھرتا ہوں
تو آئینہ ہے، تجھے دیکھ کر سنورتا ہوں
کہاں کہاں ترا چہرہ تلاش کرتا ہوں