دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائے وہ
جو بادشاہ عشق میں مزدور ہو گیا
Printable View
دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائے وہ
جو بادشاہ عشق میں مزدور ہو گیا
صبح وصال پوچھ رہی ہے عجب سوال
وہ پاس آگیا کہ بہت دُور ہو گیا
کچھ پھل ضرور آئیں گے روٹی کے پیڑ میں
جس دن مرا مطالبہ منظور ہو گیا
فلک سے چاند ، ستاروں سے جام لینا ہے
مجھے سحر سے نئی ایک شام لینا ہے
کسے خبر کہ فرشتے غزل سمجھتے ہیں
خُدا کے سامنے کافر کا نام لینا ہے
معاملہ ہے ترا بد ترین دُشمن سے
مرے عزیز محبت سے کام لینا ہے
مہکتی زُلف سے خوشبو ،چمکتی آنکھ سے دھُوپ
شبوں سے جام ، سحر کا سلام لینا ہے
تمہاری چال کی آہستگی کے لہجے میں
سخن سے دل کو مسلنے کا کام لینا ہے
نہیں میں میر کے در پر کبھی نہیں جاتا
مجھے خُدا سے غزل کا کلام لینا ہے
بڑے سلیقے سے نوٹوں میں اُس کو تلوا کر
امیرِ شہر سے اب انتقام لینا ہے