تیرے عشق کا تیری روح کا
میری وحشتوں میں ظہور ہے
Printable View
تیرے عشق کا تیری روح کا
میری وحشتوں میں ظہور ہے
اے دل رائیگاں اداس اداس
پھر رہے ہو کہاں اداس اداس
چاند اک عمر سے سفر میں ہے
آسماں آسماں اداس اداس
جب بھی دیکھا ہے جھانک کر دل میں
ہو گیا سب جہاں اداس اداس
زندگی کھیل ہے اداسی کا
ہم یہاں تم وہاں اداس اداس
پھرتے رہتے ہیں ہم محبت میں
مضمحل ناتواں اداس اداس
سوچتا ہوں کہ میرے سینے میں
جانے کیا ہے نہاں اداس اداس
کیا اداسی سوا نہیں کچھ بھی
اے میرے لا مکاں اداس اداس
یوں ہی بے سبّب نہ پھرا کرو، کوئ شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئ ہاتھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو