دیکھ ٹلتی ہے مصیبت کیسے
میں نے مولا کو پکارا ہے ابھی
Printable View
دیکھ ٹلتی ہے مصیبت کیسے
میں نے مولا کو پکارا ہے ابھی
جانے کب آن گرے
زیر دیوار نہ جا
شان سے جاؤ تو ہے
یوں سرِ دار نہ جا
آ تیرا دکھ بانٹوں
شام بیمار نہ جا
کچھ نہ کچھ لڑ تو سہی
اس طرح ہار نہ جا
کچھ دلاسہ بھی تو دے
ہم کو یوں مار نہ جا
یہ جو آنسوؤں میں غرور ہے
یہ محبتوں کا فتور ہے
ترا آسمان قریب تھا
مرا آسمان تو دور ہے
مجھے کہہ رہی تھی وہ عزم سے
مجھے تم کو پانا ضرور ہے
یہ میری شبیہ نہیں، سنو
یہ تو میری آنکھوں کا نور ہے