زندگی کے درد بوڑھا کر گئے
اور بڑھاپے میں جوانی کیا کروں
Printable View
زندگی کے درد بوڑھا کر گئے
اور بڑھاپے میں جوانی کیا کروں
تشنگی میری بجھا سکتا نہیں
اے سمندر اتنا پانی کیا کروں
کوئی بھی رد عمل مفقود ہے
اتنی ساری رائیگانی کیا کروں
میں تیرے جذبوں کی شدت کا بیاں
صرف قاصد کی زبانی کیا کروں
تو نے کس جا پہ اتارا ہے ابھی
کس قدر دور کنارا ہے ابھی
اپنی تقدیر بدل سکتا ہوں
میری مٹھی میں ستارا ہے ابھی
زندگی کہتی ہے کچھ دیر ٹھہر
لیکن اس کا تو اشارہ ہے، ابھی
تم ابھی پاس کھڑے ہو میرے
مجھ کو ہر شخص گوارا ہے ابھی
ہم اسے سونپ چکے ہیں سب کچھ
اور وہ کہتا ہے خسارہ ہے ابھی
وصل کچھ دیر ٹھہر جانے دے
دل تیرے ہجر کا مارا ہے ابھی