اب نہ کوئی راہ چیختی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
Printable View
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے
اک ذرا بیتا تو سب دنیا خیالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لا ابالی کر گیا
ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو
فصل لا وارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
پربت پربت اڑے پھرے ہے من پنچھی بے چین
جانے کہاں کہاں لے جائیں سانوریا کے نین
آؤں کہیں چھپ کے روتے ہیں ورنہ نگری میں
کوئی سنے نا ہوک دلوں کی کوئی سنے نا بین
لو دھیرے دھیرے دھندلا ہوتا جاتا ہے مہتاب
بیت چلا ہے جیون، جیسے بیت چلی ہو رین
ہم تو جیسے دل آنکھوں میں لے کے پھرتے ہوں
بیٹھے بیٹھے ہنسی میں رو دیتے ہیں نین
بولو فرحت آخر کس کو دیکھ کے آئے ہو
مدت بعد تیری آنکھوں میں دیکھا ہے سکھ چین
زخم دل کی یہ کہانی کیا کروں
میں تیری اک اک نشانی کیا کروں