سبزہ و گل کو اپنا پتا دیجیے
تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے
Printable View
سبزہ و گل کو اپنا پتا دیجیے
تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے
اس میں بھی بِن تمہارے کشش کچھ نہیں
موسمِ گل کو اتنا بتا دیجیے
دل میں پھر اَوج پر ہے تمہاری لگن
آگ بھڑکی ہے اِس کو ہوا دیجیے
میں نے گستاخ نظروں کو روکا نہیں
اِس بغاوت کی مجھ کو سزا دیجیے
لطف و راحت کے غنچے کھِلے جس قدر
ہجر کی آنچ سے سب جلا دیجیے
سخت جاں ہوں مجھے آزما دیکھیے
تیر سارے کماں کے چلا دیکھیے
جس میں مجھ کو ارادے جلانے کے ہیں
اُس اگن کو بھی دے کر ہوا دیکھیے
میں نے کرنی تھی جاں، نذر کی ہے تمہیں
لعل ہے جو پہنچ میں گنوا دیکھیے
میرے حق میں ہیں جن جن کی بیداریاں
سب کے سب ایسے جذبے سُلا دیکھیے
جس سے شہرِ رقیباں میں ہلچل مچے
حشر ایسا بھی کوئی اٹھا دیکھیے
سن ذرا اے صنم! گنگناتی ہے کیا، رقص کرتی ہوا
لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا
چھُو کے تیر ا بدن تیری لہراتی زلفیں ترا پیرہن
تجھ سے کہتی ہے کیا کیا مرا مدّعا ،رقص کرتی ہوا
ساتھ لاتی ہے کیا کیا تم ایسے نہ گھونگھٹ بناتی ہوئی
تیرا رنگِ حیا تیرا رنگِ قبا رقص کرتی ہوا
غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہُوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
میں گیا وقت جا چکا ہوں ،مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو کوئی اور اختیار نہ کر
قوسیں مہکتے لمس کی رَس گھولتی رعنائیاں
ہاتھوں سے دُور ہونے لگیں اُس جسم کی گولائیاں
شاخوں سے جھڑتے پھُول سی، سر پر امڈتی دھول سی
حق میں ہمارے ہو چلیں، کیا کیا کرم فرمائیاں
ہر کُنج سے چھلکا کئے کیا کیا خزینے لطف کے
لپٹیں تھیں جیسے مشک کی اُس حسن کی پہنائیاں
اُس شوخ کے الطاف کی ،ہم سے نہ ناپی جاسکیں
دل کو جو ارزانی ہوئیں ،اُس درد کی گہرائیاں
ہم کو اکیلا چھوڑ کر، جب سے وہ چنچل جا چکا
ہر سمت اگنے لگ پڑیں، ڈستی ہوئی تنہائیاں
کیوں رُلاتی نہ تمہیں پیار کہانی میری
اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری
طاقِنسیاں میں کہیں رکھ کے اُسے بھول گئے
انگلیوں میں جو سجائی تھی نشانی میری
آنچ سی دینے لگا ہجر کا صحرا جب سے
اور مرجھانے لگی عمر سہانی میری
برقِ فرقت کی گرج خوف دلاتی ہے یہی
راکھ کا ڈھیر نہ ہو جائے جوانی میری
مجھ کو دہرانے پہ مجبور نہ کرنا جاناں !
جاں سے جانے کی ہے جو ریت پرانی میری
مری آرزو کا مآل ہے تجھے دیکھنا
مگر اک کٹھن سا سوال ہے تجھے دیکھنا
کبھی ابر میں ،کبھی چاند میں، کبھی پھُول میں
سرِگردش مہ و سال ہے تجھے دیکھنا
رگ و پے میں گرچہ ہے چاشنی ترے قرب کی
تو مہک ہے کارِ محال ہے تجھے دیکھنا
کوئی عید بھی ہو سعید ہے ، تری دید کی
پئے چشم، کسبِکمال ہے تجھے دیکھنا
منظروں سپنوں ارادوں کی قبائیں شوخ ہیں
رشک میں اُس شوخ کے اب کی ادائیں شوخ ہیں
اُس کے دم سے سخت واماندہ ہیں خدشوں کے عقاب
اور سکون و امن کی سب فاختائیں شوخ ہیں
اُس کے ہونٹوں پر دمکتی مسکراہٹ دیکھ کر
آسماں پر ابر چنچل ہیں، ہوائیں شوخ ہیں
اُس بدن پر دیکھ کر پیہم مہکتا پیرہن
گل بہ گل بے نام خوشبو کی ردائیں شوخ ہیں
ہم سخن ہونے کو اُس ہر دم سراپا ناز سے
باغ میں کلیوں کے کھِلنے کی صدائیں شوخ ہیں
موسمِ گل کے رنگ تو آنے جانے ہیں
ہنس ہنس کر تم ہی نے پھُول کھلانے ہیں
ہم نے پانے کو تیرے اقرار کی نم
کونجوں جیسے حرف زباں پر لانے ہیں
خوشبو کے مرغولے ،رنگت پھُولوں کی
بھنوروں کے ایسے ہی ٹھور ٹھکانے ہیں