چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں
Printable View
چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں
نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں
نہ وہ مستیاں ہیں، نہ سرشاریاں ہیں
خودی کا ہی احساس خود داریاں ہیں
محبت اثر کرتی ہے چپکے چپکے
محبت کی خاموش چنگاریاں ہیں
نگاہ تجسس نے دیکھا جہاں تک
پرستاریاں ہی پرستاریاں ہیں
تجلی سے کہہ دو ذرا ہاتھ روکے
بہت عام اب دل کی بیماریاں ہیں
نہ آزاد دل ہیں، نہ بے قید نظریں
گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں
نہ ذوق تخیل، نہ ذوق تماشا
محبت ہے اب اور بے زاریاں ہیں
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنوارتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
اوس پڑے بہار پر، آگ لگے کنار میں
تم جو نہیں کنار میں، لطف ہی کیا بہار میں
اس پہ کرے خدا رحم گردش ِ روزگار میں
اپنی تلاش چھوڑ کر جو ہے تلاش ِ یار میں
ہم کہیں جانے والے ہیں دامن ِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہونگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا، فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے، ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد، دونوں اسیر ِ زلف ِ حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامن ِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
درد دل میرے لئے گر ہے تو ہو
میں نہیں ہر گز برائے درد دل
مجھ سے شاید رہ نہ جائے کچھ کمی
آپ ہی دے لیں سزائے درد دل
کچھ تغافل، کچھ توجہ، کچھ غرور
دیکھنا شان عطائے درد دل
درد دل! غیرت تیری کیا ہو گئی
ان لبوں پر اور ہائے درد دل !
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں، میکدہ بر ہوش نہیں
کونسا جلوہ یہاں آتے ہی بے ہوش نہیں
دل مرا دل ہے، کوئی ساغر سر جوش نہیں
حسن سے عشق جدا ہے نہ جدا عشق سے حسن
کونسی شئے ہے، جو آغوش در آغوش نہیں؟
مٹ چکے ذہن سے سب یاد گذشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی کہ فراموش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں !
عشق گر حسن کے جلووں کا ہے مرہون کرم
حسن بھی عشق کے احساں سے سبکدوش نہیں
ان شاعران دہر پہ ہو عشق کی ہی مار
اک پیکر جمیل کو قاتل بنا دیا
دکھلا کے ایک جلوہ سرا پائے حسن کا
آنکھوں کو اعتبار کے قابل بنا دیا
دونوں جہاں تو اپنی جگہ پر ہیں بر قرار
کیا چیز تھی کہ جس کو مرا دل بنا دیا
محبت کی محبت تک ہی جو دنیا سمجھتے ہیں
خدا جانے وہ کیا سمجھے ہوئے ہیں، کیا سمجھتے ہیں
جمال رنگ و بو تک حسن کی دنیا سمجھتے ہیں
جو صرف اتنا سمجھتے ہیں، وہ آخر کیا سمجھتے ہیں
مے و مینا کے پردے ان کو دھوکا دے نہیں سکتے
ازل کے دن سے جو راز مے و مینا سمجھتے ہیں
خبر اس کی نہیں ان خام کاران محبت کو
اسی کو دکھ بھی دیتے ہیں جسے اپنا سمجھتے ہیں
فضائے نجد ہو، یا قیس عامر، اے جگر! ہم تم
جو کچھ بھی ہے اسے عکس رخ لیلیٰ سمجھتے ہیں
اللہ رے وہ شدت جذبات کا عالم
کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم