ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
Printable View
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
وہ زمین غالب کی لکھوں جس میں ہے تکرار دوست
میں بھی کھینچوں قامت جاناں یہ ہے اسرار دوست
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثار دوست
اک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جانا جس کو دیکھا یار دوست
روح و تن نے ہر نفس اک آنکھ چاہی تب کھلا
دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدار دوست
سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے
جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ گفتار دوست