لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاع ِ آوارہ ہوں آئینہ شبنم میں ہوں
Printable View
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاع ِ آوارہ ہوں آئینہ شبنم میں ہوں
خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے
جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حجرۂ راز و نیاز میں چپ
تم چاہ میں جس کی مر رہے ہو
اس میں تو نہیں ہے چاہ لوٹ آؤ
دیکھا اُسے تو طبع رواں ہو گئی مری
وہ مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
دیکھا ہے اُس کو خلوت و جلوت میں بار ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا
کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا
سو کرتَبوں سے لکّھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست