دور تھی از بسکہ راہِ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
Printable View
دور تھی از بسکہ راہِ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بن اے نور بصر دکھنے لگا
درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر
واں سے تب سرکا ادہار دکھنے لگا
مت کراہ انشا نہ کر افشائے راز
دل کو دکھنے دے اگر دکھنے لگا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمھیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھی نہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
نہیں ہے کچھ قتل انکا آساں یہ سخت جاں ہیں بری بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا
مری تو ہے بات زہر ان کو وہ ان کے مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہی نہ کرنا
وہ ہے ہمارا طریق الفت کہ دشمنوں سے بھی مل کے چلنا
یہ ایک شیوہ ترا ستمگر کہ دوست سے دوستی نہ کرنا