بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
Printable View
بے چین مزاجی میں عجب کچھ بھی نہیں تھا
سوچا تو بچھڑنے کا سبب کچھ بھی نہیں تھا
اس بخت میں اب لاکھ زمانہ تجھے چاہے
ہم نے تو تجھے چاہا، تُو جب کچھ بھی نہیں تھا
تو نے میری جاں جھانک کے دیکھا نہ تھا دل میں
چہرے پہ جو تھا وہ تو غضب کچھ بھی نہیں تھا
جو مجھ سے فقیروں کے دلوں میں تھا وہی تھا
لوگوں نے جسے پوجا وہ رب کچھ بھی نہیں تھا
فرحت جو کوئی بھی تھا کہاں سے تھا بس اس کا
اک عشق سوا نام و نسب کچھ بھی نہیں تھا
مدتوں بعد میرا سوگ منانے آئے
لوگ بھولا ہوا کچھ یاد دلانے آئے
بڑھ گیا دل کے جنازے میں ستاروں کا ہجوم
کتنے غم ایک تیرے غم کے بہانے آئے
رات اک اُجڑی ہوئی سوچ میرے پاس آئی
اور پھر اُجڑے ہوئے کتنے زمانے آئے
ایک اک کر کے حوادث بڑی ترتیب کے ساتھ
مرحلہ وار میرا ساتھ نِبھانے آئے
نقش پختہ تھا تیرے غم کا وگرنہ موسم
بارہا دل سے میرے اس کو مٹانے آئے