پھول بھی ابر بھی مہتاب بھی میرے کب تھے
میرے جو خواب تھے وہ خواب میرے کب تھے
Printable View
پھول بھی ابر بھی مہتاب بھی میرے کب تھے
میرے جو خواب تھے وہ خواب میرے کب تھے
ہاتھ تیرا ہی تھا سب میری رتوں کے پیچھے
باغ جو سبز تھے شاداب تھے میرے کب تھے
میرے سینے کے جو صحرا تھے کہاں تھے میرے
میری آنکھوں کے جو سیلاب تھے میرے کب تھے
کب مرے پاس کتابوں کے سوا بھی کچھ تھا
تاریخ کے کچھ باب تھے میرے کب تھے
میں تو اس پیاس کا وارث ہوں کہ بنجر پن کا
گاؤں کے کھیت جو سیراب تھے میرے کب تھے
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد
وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد
آہیں بھرتی ہے شب ہجر یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعد
شام تک رہا کرتے ہیں دل کے اندر
درد ہو جاتے ہیں سارے ہی رہا شام کے بعد
لوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں لیکن جاناں
ہم نے خوش ہو کے ترا درد سہا شام کے بعد