وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
Printable View
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا
میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا
دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا
لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا
برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا
کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر
عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا
دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے
دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا
ہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں
کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے