در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
Printable View
در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
گُرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگا
تیر چِلّے پر چڑھے جتنے جگر کے پار تھے
جان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھے
سب کے سب شاخِ سماعت پر تبر کی دھار تھے
کھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کھلا
اِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھے
کیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئے
جس قدر بھی جبر کے آداب تھے، اطوار تھے
دل دُکھایا مرا تم تو ایسے نہ تھے
تم نے یہ کیا کِیا تم تو ایسے نہ تھے
تم نے جھاڑا مجھے شاخ سے برگ سا
اور دیا پھر اُڑا تم تو ایسے نہ تھے
کس کی باتوں میں آ کر تیاگا مجھے
تم کہ تھے با وفا تم تو ایسے نہ تھے
بھول جاؤں نہ منہ تک تمہارے لگوں
تم نے یہ بھی کہا، تم تو ایسے نہ تھے
آگ پہلے دکھائی مری آس کو
اور اُسے دی ہوا، تم تو ایسے نہ تھے
دیکھنا دیکھنا اک نظر دیکھنا
میر ے ہونٹوں پہ رقصاں شرر دیکھنا
میری جانب سے ہے اِک کبوتر اڑا
اُس کی تم منتہائے سفر دیکھنا
دمبدم ہیں رواں جو تمہاری طرف
اور شل ہیں جو، وہ بال و پر دیکھنا
جان لینا اسے تم پیمبر مرا
ایک تارا قریبِ قمر دیکھنا
آنکھ مضطر ہے اور چاہتی ہے کوئی
جسم کی چاندنی کا نگر دیکھنا
دل میں اندوہ جتنا تھا دل میں رہا ہم نہ کچھ کہہ سکے
آپ سے ہو گیا بھی اگر سامنا ہم نہ کچھ کہہ سکے
منعکس ہو سکی ہم سے بس اِس قدر اپنی رودادِ دل
ایک قطرہ سا پلکوں سے ڈھلکا کیا ہم نہ کچھ کہہ سکے
دل کے اندر تھا جو کچھ وہ چہرے پہ مرقوم ہوتا رہا
حشر سا اک پسِچشم و لب تھا بپا ہم نہ کچھ کہہ سکے
نارسائی کی کثرت نے ہم کو دلائے حجاب اس قدر
چھیڑتی رہ گئی آنچلوں کی ہوا ہم نہ کچھ کہہ سکے
عذر کیا کیا زباں پر نہ لائے، دئیے کوسنے کیا سے کیا
آپ ہی نے ہمیں جو کہا سو کہا ،ہم نہ کچھ کہہ سکے
دیکھتے گر ذرا ہنس کے اے مہرباں کچھ بگڑنا نہ تھا
چاند چہرے کا ہوتا اگر ضَونشاں کچھ بگڑنا نہ تھا
دو قدم ہم چلے تھے اگر دو قدم تم بھی چلتے ادھر
اس سے ہونا نہیں تھا کسی کا زیاں،کچھ بگڑنا نہ تھا
حسن کی کھنکھناتی ندی جانے کیوں ہم سے کھنچتی رہی
گھونٹ دو گھونٹ پینا تھا آبِ رواں، کچھ بگڑنا نہ تھا
بندھنوں سے بغاوت، قیامت کا باعث نہ ٹھہری کبھی
جس طرح کا ہے، رہتا وہی آسماں کچھ بگڑنا نہ تھا
تھوکنے سے بھلا رُوئے مہتاب پر فرق پڑنا تھا کیا
کھُل گئی اِس طرح نیّتِ حاسداں کچھ بگڑنا نہ تھا
رنگ گھُلیں جب بھی پُروا میں یاد بہت آتے جو جاناں
پھُول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
اوس پڑی جب پھُولوں پر ہو، قوس دھنک کی پیشِ نظر ہو
برکھا کی نمناک ہو امیں یاد بہت آتے ہو جاناں
تم کہ مہک کا اک جھونکا ہو تم کہ لپکتی موجِ صبا ہو
تنہائی جیسے صحرا میں، یاد بہت آتے ہو جاناں
کیف نیا دے جانے والے ،قرب کا لطف دلانے والے
موسم کی پر نور فضا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
ہر سو ہیں خوشبو کے ریلے ،ہیں جس میں رنگوں کے میلے
عیش مناتی اس دنیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
زر و نقدِ راحت تمہی پر لٹاتا تم آئے تو ہوتے
نجانے یہ دل جشن کیا کیا مناتا تم آئے تو ہوتے
گلے میں حمائل سجل ضَو کے ہالے، سرِبام چندا
جہاں بھر کو میں اپنی پونجی دکھاتا تم آئے تو ہوتے
کلی کی چٹک سی ،زمیں پر نئی بوندیوں کی کھنک سی
نرالی دھنیں میں لبوں پر سجاتا تم آئے تو ہوتے
مجھے کس طرح تم جلاتے بجھاتے رہے فرقتوں میں
تمہیں جَور اک اک تمہارا سُجھاتا تم آئے تو ہوتے
ان اشکوں کے آنکھوں سے فرطِمسرت میں جو پھوٹتے ہیں
نئے دیپ پلکوں پہ اپنی جلاتا تم آئے ہوتے
سچّے ہو گر تو اور نہ آنکھیں چُرائیے
لیکن جو ہو چکی وہ خطا مان جائیے
کیو ں وقتِ گفتگو ہے نگاہوں میں اضطراب
زیرِ زباں ہے جو وہ زباں پر بھی لائیے
میں پھُول بھی ہوں گر تو بگولوں کی زد پہ ہوں
میں کھو چکا حواس مرے منہ نہ آئیے
کھینچے جو اپنی سمت اُنہیں بھی جو دُور ہیں
ایسا بھی کوئی پھُول سرِ لب کھِلائیے
لَو دے اٹھے گلاب نہ آخر سرِحجاب
اس طور بھی نہ روئے درخشاں چھپائیے