ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
Printable View
ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا
تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا
سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معاملۂ چشمِ تر ہوا
رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ! کس کا خانۂ دل میں گزر ہوا
فریاد کیسی ؟ کس کی شکایت ؟ کہاں کا حشر ؟
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہوا
وارفتگیِ شوق کا اللہ رے کمال!
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا
حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر ، اے جگر
جو فصلِ گل کے آتے ہی بے بال و پر ہوا
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اُس رخِ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن ، یہ شوخی ، یہ کرشمہ ، یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے ، تو کیا نظر آیا
اِک سر خوشیِ عشق ہے ، اک بے خودیِ شوق
آنکھوں کو ، خدا جانے ، مری کیا نظر آیا
قربان تری شانِ عنایت کے دل و جاں
جب آنکھ کھلی ، قطرہ بھی دریا نظر آیا
جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقشِ کفِ پا نظر آیا
آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
مجھے ہلاک فریب مجاز رہنے دے
نہ چھیڑ او نگہ امتیاز رہنے دے
یہ بات کیا کہ حقیقت وہی مجاز وہی
مجاز ہے تو پھر اس کو مجاز رہنے دے
یہ خانقاہ نہیں پی بھی جا تو اے زاہد
یہ میکدہ ہے یہاں اس کو مجاز رہنے دے
گزرتی ہے جو دل عشق پر نہ پوچھ جگر
یہ خاص راز محبت ہے راز رہنے دے
ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا
جہاں سے چاہنا ان کا وہیں سے دور ہو جانا
نقاب روئے نادیدہ کا از خود دور ہو جانا
مبارک اپنے ہاتھوں حسن کو مجبور ہو جانا
سراپا دید ہو کر غرق موج نور ہو جانا
ترا ملنا ہے خود ہستی سے اپنی دور ہو جانا
نہ دکھلائے خدا ، اے دیدہ تر دل کی بربادی
جب ایسا وقت آئے پہلے تو بے نور ہو جانا
جو کل تک لغزش پائے طلب مسکراتے تھے
وہ دیکھیں آج ہر نقش قدم کا طور ہو جانا
محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا
محبت عین مجبوری سہی لیکن یہ کیا باعث
مجھے باور نہیں آتا مرا مجبور ہو جانا
نگاہ ناز کو تکلیف جنبش تا کجا آخر
مجھی پر منحصر کر دو مرا مجبور ہو جانا
جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا
تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
فسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہوئی تہی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہِ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں