ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
Printable View
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے
کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز
تم ہم سفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا
آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاک ِ رہ گزر
سینے میں کچھ نہیں بجز نالہ و نوا
بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی
کہ اک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے
ترک تعلق ایک قیامت پرسش ِ یاراں اور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے
مجھے یہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے
کھنچی تھی جس سے حرف میں اک صورت ِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
لوگ اپنے دل کی بات ڈھونڈتے ہیں نغموں میں
صرف ایک بہانہ ہے ساز کا ترنم کا
اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اتار