ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا
کوئی سنبھال لو مجھ کو ، کوئی کہے مجھ سے
Printable View
ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا
کوئی سنبھال لو مجھ کو ، کوئی کہے مجھ سے
ابھی ابھی کہ میں یوں ڈھونڈتا تھا راہ فرار
پتہ چلا کہ مرے اشک چھن گئے مجھ سے
مری رفیق ِ طرب گاہ ، تیری آمد پر
نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے
کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار
نظر نظر کو جِگر میں اتارنے کے لئے
ہوا سے لوچ ، کَلی سے نکھار مانگا تھا
ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لئے
بہت سے گیت چھلکتے رہے اُفَق کے قریب
بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں
الجھ الجھ گئیں مجروح زیست کی گرہیں
بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں
میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی
علاج ِ تیرہ شبی کیا اِسی کو کہتے ہیں !
بجھے بجھے سے یہ مفلس دیئے نہ جانے کیا
سُلگ سُلگ کے تری بےحسی کو کہتے ہیں
یہ گیت سر بگریباں ہیں تیرے جانے سے
یہ تو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ