ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
Printable View
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے
اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے
وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک
جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے
جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم
دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے
زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے